حمل کے دوران ماں کے جسم میں بے شمار تبدیلیاں آتی ہیں، لیکن کچھ تبدیلیاں ایسی ہوتی ہیں جو نہ صرف ماں بلکہ بچے کی صحت کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہیں۔ انہی میں سے ایک صورتحال حمل کا شدید فیٹی لیور (Acute Fatty Liver of Pregnancy) ہے، جو ایک نایاب مگر ممکنہ طور پر جان لیوا حالت ہے۔ اس بلاگ میں ہم اس بیماری کی اقسام، علامات، وجوہات، خطرات اور علاج کو آسان انداز میں جانیں گے تاکہ آپ بہتر طور پر اس کو سمجھ سکیں۔
حمل کا شدید فیٹی لیور کیا ہے؟
حمل کا شدید فیٹی لیور ایک نایاب لیکن سنگین میڈیکل حالت ہے جس میں جگر کے خلیوں میں اچانک چربی جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جب جگر میں چربی بڑھ جائے تو اس کا کام متاثر ہوتا ہے، جس سے جسم کے متعدد فنکشن سست پڑ جاتے ہیں۔ یہ بیماری عموماً حمل کے تیسرے اور آخری ٹرائمسٹر میں ظاہر ہوتی ہے، خاص طور پر 34 سے 37 ہفتے کے درمیان۔ اگر بروقت تشخیص نہ ہو تو یہ حالت ماں میں جگر کی ناکامی، گردوں کے مسائل، اور بچے میں آکسیجن کی کمی جیسے پیچیدہ مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر اس بیماری کو میڈیکل ایمرجنسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
حمل کے شدید فیٹی لیور کی اقسام
حمل کا یہ مسئلہ بنیادی طور پر ایک ہی قسم پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن شدت اور علامات کے اعتبار سے اسے مختلف کیٹیگریز میں دیکھا جاتا ہے۔ بعض خواتین میں یہ حالت ہلکی شدت سے شروع ہوتی ہے اور جگر کے ہلکے بگاڑ کا باعث بنتی ہے، جبکہ کچھ کیسز میں یہ اچانک شدید شکل اختیار کر لیتی ہے جس سے ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ کچھ مریضوں میں فیٹی لیور کے ساتھ ساتھ جگر کے انزائم اتنے زیادہ بڑھ جاتے ہیں کہ حمل کو فوری طور پر ختم کرنا پڑتا ہے۔ یہ حالت پری ایکلیمپسیا یا HELLP سنڈروم کے ساتھ بھی دیکھی جا سکتی ہے، جس سے اس کی پیچیدگی بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے ڈاکٹر ہر کیس کو علامات اور لیب ٹیسٹ کی بنیاد پر مختلف شدت کی سطحوں میں تقسیم کرتے ہیں تاکہ بروقت علاج کیا جا سکے۔
حمل کے دوران فیٹی لیور کے نمایاں اسباب
فیٹی لیور کا اصل سبب ابھی مکمل طور پر واضح نہیں، لیکن ماہرین کے مطابق اس کا تعلق جینیاتی، ہارمونل اور میٹابولک عوامل سے ہو سکتا ہے۔ ایک اہم وجہ بچے میں موجود ایک خاص انزائم کی کمی ہے، جسے LCHAD deficiency کہا جاتا ہے۔ اس خرابی کے باعث بچے کے میٹابولزم میں بننے والے بائی پروڈکٹس ماں کے جگر پر جمع ہونے لگتے ہیں اور اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کچھ خواتین میں ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے جگر چربی کو مؤثر طریقے سے پروسیس نہیں کر پاتا، جس سے یہ حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر حاملہ عورت کو پہلے سے جگر کے مسائل، موٹاپا، انسولین ریزسٹنس یا جینیاتی کیریئر ہونے کا خدشہ ہو، تو اس بیماری کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
حمل کے شدید فیٹی لیور کی اہم علامات
اس بیماری کی علامات شروعات میں بہت عام اور ہلکی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں اکثر معمول کی حمل کی علامات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ تاہم جیسے جیسے جگر پر دباؤ بڑھتا ہے، علامات شدید اور خطرناک ہونے لگتی ہیں۔ ان میں مسلسل متلی اور الٹی، پیٹ کے اوپری حصے میں درد، بھوک میں کمی، تیز تھکن، جلد اور آنکھوں کا پیلا پن (یرقان)، بار بار پیشاب کے رنگ میں گہرائی، اور اچانک کمزوری شامل ہیں۔ بعض خواتین میں ذہنی الجھن، بے چینی، یا بے ہوشی کی کیفیت بھی پیدا ہو سکتی ہے، جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ بیماری بڑھ چکی ہے اور فوری طبی توجہ کی ضرورت ہے۔
یہ بیماری کن خواتین میں زیادہ ہوتی ہے؟ (رسک فیکٹرز)
اگرچہ یہ بیماری کسی بھی حاملہ عورت کو متاثر کر سکتی ہے، مگر کچھ خواتین میں اس کا خطرہ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ ان میں پہلی بار حاملہ ہونے والی خواتین، جڑواں یا زیادہ بچوں کے حاملہ ہونے والے کیسز، زیادہ عمر کی حاملہ خواتین، اور وہ خواتین شامل ہیں جنہیں پہلے سے جگر یا گردوں کے مسائل ہوں۔ اس کے علاوہ اگر کسی خاتون کے پچھلے حمل میں فیٹی لیور کی ہسٹری ہو، تو اگلے حمل میں اس کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ خواتین میں جینیاتی عوامل بھی موجود ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے بچے کا میٹابولزم متاثر ہوتا ہے اور اس کا اثر براہ راست ماں کے جگر پر پڑتا ہے۔
حمل کے دوران فیٹی لیور کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟
تشخیص کے لیے ڈاکٹر سب سے پہلے آپ کی مکمل علامات اور میڈیکل ہسٹری کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس کے بعد خون کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جن میں جگر کے انزائم، بلِرُوبن، شوگر لیول، کریٹینائن اور کوگولیشن پروفائل شامل ہوتے ہیں۔ اکثر خواتین میں یہ ٹیسٹ واضح طور پر بتاتے ہیں کہ جگر ٹھیک طرح کام نہیں کر رہا۔ بعض کیسز میں الٹراساؤنڈ بھی کروایا جاتا ہے، جس سے فیٹی لیور کی نوعیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اگر علامات شدید ہوں اور ٹیسٹ نتائج خراب ہوں تو ڈاکٹر فوری تشخیص کرتے ہوئے علاج شروع کر دیتے ہیں کیونکہ اس بیماری میں دیر کرنا ماں اور بچے دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
حمل کے شدید فیٹی لیور کے خطرات اور پیچیدگیاں
اگر یہ بیماری بروقت پکڑی نہ جائے تو اس کے خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ ماں میں جگر کی شدید ناکامی، گردوں کا فیل ہونا، خون جمنے میں دشواری، انفیکشن کا بڑھا ہوا خطرہ، اور بلڈ پریشر کا تیزی سے بڑھ جانا شامل ہیں۔ بچے کے لیے آکسیجن کی کمی، قبل از وقت پیدائش اور یہاں تک کہ رحم میں موت کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ڈاکٹر اس بیماری کو ایمرجنسی کے طور پر ٹریٹ کرتے ہیں اور اکثر فوری ڈیلیوری کی تجویز دیتے ہیں تاکہ ماں کی حالت مزید بگڑنے سے بچائی جا سکے۔
حمل میں فیٹی لیور کا علاج — بروقت قدم اہم ہیں
اس بیماری کا علاج بنیادی طور پر ماں اور بچے دونوں کی جان بچانے کے اردگرد گھومتا ہے۔ زیادہ تر کیسز میں ڈاکٹر جلد از جلد بچے کی ڈیلیوری کی تجویز دیتے ہیں، چاہے حمل مکمل نہ بھی ہوا ہو۔ ڈیلیوری کے بعد ماں کے جگر کی حالت تیزی سے بہتر ہونے لگتی ہے۔ ہسپتال میں داخل مریضہ کو IV فلوئیڈز، گلوکوز، درد کم کرنے والی ادویات، اینٹی بایوٹکس اور دیگر سپورٹو کیئر دی جاتی ہے۔ اگر کسی مریضہ میں خون جمنے کا مسئلہ ہو تو پلازما یا خون کی ٹرانسفیوژن بھی دی جاتی ہے۔ علاج کا مقصد جگر کو مزید نقصان سے بچانا اور جسم کے اہم نظاموں کو سپورٹ فراہم کرنا ہوتا ہے۔
بچے کی دیکھ بھال اور ممکنہ ٹیسٹ
اگر ڈاکٹر کو شبہ ہو کہ بچے میں LCHAD یا کسی اور فیٹی ایسڈ میٹابولزم کی کمی ہو سکتی ہے، تو پیدائش کے بعد خاص ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ ایسے بچے خاص نگہداشت کے یونٹ (NICU) میں رکھے جاتے ہیں تاکہ ان کی سانس، دل کی دھڑکن اور بلڈ شوگر لیول مناسب رہے۔ چونکہ یہ میٹابولک مسائل مستقبل میں بھی مسائل پیدا کر سکتے ہیں، اس لیے ماہر ڈاکٹر والدین کو تفصیلی گائیڈ لائن فراہم کرتے ہیں تاکہ بچے کی صحت کا بہتر خیال رکھا جا سکے۔
حمل میں فیٹی لیور سے بچاؤ — کیا ممکن ہے؟
اگرچہ اس بیماری کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں، لیکن کچھ احتیاطی تدابیر اس کے خطرات کو کم کر سکتی ہیں۔ حاملہ خواتین کو چاہیے کہ باقاعدگی سے اپنے چیک اپ کروائیں، جگر کے ٹیسٹ کے نتائج پر توجہ دیں، صحت مند غذا لیں، جسمانی وزن کو کنٹرول میں رکھیں اور اگر کوئی مشکوک علامت ظاہر ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ اگر پچھلے حمل میں یہ مسئلہ ہو چکا ہے، تو اگلے حمل کے دوران ڈاکٹر سے پہلے ہی تفصیلی مشورہ لازمی کریں۔
نتیجہ
حمل کا شدید فیٹی لیور ایک نایاب مگر بہت سنجیدہ حالت ہے، جسے نظر انداز کرنا ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے بروقت تشخیص، مناسب میڈیکل کیئر اور فوری ڈیلیوری اس بیماری کے خطرات کو کم کر دیتے ہیں۔ اگر آپ حمل کے آخری مہینوں میں ہیں اور کوئی غیر معمولی علامت محسوس کریں تو تاخیر نہ کریں — اپنا چیک اپ فوری کرائیں۔
براہ کرم انسٹا کیئر کے ذریعے لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بہترین ماہر امراض نسواں کے ساتھ ملاقات کا وقت بُک کریں، یا اپنی بیماری کے لیے تصدیق شدہ ڈاکٹر تلاش کرنے کے لیے ہماری ہیلپ لائن 03171777509 پر کال کریں۔